السلام علیکم میرا نام سید مصطفی علی نقوی ہے
اور میں آپ سے سے اپنا تعارف کروانے سے پہلے تھوڑا سا اپنا خاندانی پس منظر بیان کرنا چاہتا ہوں، مجھے امید ہے کہ اس کے بعد آپ کو میرے مقاصد اور دلچسپی کو سمجھنے میں بھرپور مدد حاصل ہوجائے گی۔
پاکستان کے خطہ پوٹھوہار میں ہمارے خاندان میں مذہبی رحجان کے ساتھ ساتھ طبی اور سماجی خدمات کا اعلٰی رحجان شامل ہے پوٹھوہار سے قبل ہمارے آباء و اجداد مدینہ سے سامرہ عراق اور وہاں سے براستہ آذربائیجان اور سابقہ روس موجودہ ازبکستان کے شہر بخارا میں آباد ہوئے وہاں سے ہجرت کرتے ہوئے پاکستان کے علاقے اچ شریف بہاولپور، وہاں سے انڈیا میں قنوج شہر اور پھر پاکستان میں کے پی میں آباد ہوئے کے پی سے پاکستان بننے سے تقریباً سو ڈیڑھ سو سال سے زیادہ عرصہ پہلے پاکستان کے دل یعنی خطہ پوٹھوہار میں مہاجرت کی اور تب سے اب تک خطہ پوٹھوہار میں نسل در نسل اہل علاقہ و مذہب کی خدمت میں مشغول ہیں. ہمارا سلسلہ نسب امام علی نقی ص سے ہوتا ہوا رسول اللہ ص سے جا کر ملتا ہے۔
حافظ حکیم سید گلاب حسین شاہ اپنے دور کے بہترین قاری خوش الحان منقبت خواں ہونے کے ساتھ ساتھ مایہ ناز طبیب بھی تھے ان کے ہاتھ سے خوش خط لکھا ہوا قرآن کریم کا نسخہ ہمارے خاندان میں ابھی تک موجود ہے. حافظ حکیم سید گلاب حسین شاہ صاحب کی ایک ہی اولاد تھی جن کی ولادت گوجرخان تحصیل میں چکری وکیلاں نامی ایک قصبہ میں ہوئی جو بعد میں حکیم سید قربان حسین شاہ کے نام سے علاقے میں طب کا اپنی ذات میں مکمل مرکز بنے حکیم سید قربان حسین شاہ صاحب کی تربیت چونکہ انتہائی اعلیٰ معیار پہ حافظ حکیم سید گلاب حسین شاہ صاحب نے کی لہذہ وہ علم حدیث، فقہ، تفسیر، کے ساتھ ساتھ علم طب میں بھی يد طولی رکھتے تھے اپنے عہد کے بہترین اطباء میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ مسیح الملک حکیم اجمل خان صاحب کی بھی صحبت شامل رہی اور کچھ عرصہ دہلی میں طبیہ کالج میں بطور استاد خدمات انجام دیں اور زبدۃ الحکماء کا اعزاز حاصل کیا. بعد ازاں اپنے خطہ پوٹھوہار میں عوام کی خدمت میں تاحیات مصروف رہے. انکے بارے میں آج بھی جن افراد نے انکا دور دیکھا، وہ اس قدر یقین رکھتے ہیں کہ انکا کہنا ہے کہ اگر حکیم سید قربان حسین شاہ صاحب کی قبر کی مٹی کو بھی چھو لیا جائے تو شفاء حاصل ہوجاتی ہے، یقیناً یہ پوری زندگی کی بے لوث خدمت کا اور اللہ پہ بے انتہا ایمان کا نتیجہ ہے کہ لوگوں کے دلوں پہ آج بھی انکی خدمات اور انکی طبی صلاحیتوں کا راج ہے۔
حکیم سید قربان حسین شاہ صاحب کے تین بیٹے بھی اسی طب کے شعبہ سے وابستہ رہے جو کہ بالترتيب حکیم سید زمرد حسين شاہ، حکیم سید مشرف حسین شاہ اور حکیم سید ظہور حسین شاہ صاحب تھے جنہوں نے اپنے آباء و اجداد کے نقوش قدم پہ چلتے ہوئے عوام کی ہر طرح سے مالی جانی سماجی خدمات سر انجام دی۔
موجودہ وقت میں بھی حافظ حکیم سید گلاب حسین شاہ صاحب کی نسل میں فاضل اطباء موجود ہیں جو کہ اپنی خاندانی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے عوام کی خدمت میں مصروف عمل ہیں انکی نسل میں موجود فاضل اطباء میں حکیم سید ضیاء الحسنین نقوی، حکیم سید علی اکبر نقوی دونوں اطباء تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال گوجرخان میں مسلسل تیس سال سے زائد عرصہ سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
میرے علاوہ حکیم سید ثقلین علی نقوی اور حکیم سید مدثر حسین نقوی بھی فاضل اطباء اور اپنے علاقے میں عوام کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔
میں حکیم سید مصطفی علی نقوی اپنے والد’’ حکیم سید ظہور حسین شاہ نقوی ‘‘کے زیر سایہ علم دین اور طب کی دس سال تک تربیت حاصل کرتا رہا 1997 سے 2007 تک اور ساتھ ہی پاکستان کی مشہور طبی درسگاہ ’’ اجمل طبیہ کالج راولپنڈی ‘‘سے ’’پروفیسر حکیم مظفر الحق خاں لودھی صاحب مرحوم‘‘ اور ’’ پروفیسر حکیم عمران لودھی صاحب ‘‘ کی نگرانی میں طب کا فاضل ڈپلومہ بھی کیا جہاں ملک کے مزید نامور اطباء سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملا جن میں’’ پروفیسر حکیم کلیم اختر مرزا‘‘ ’’ پروفیسر حکیم سید عبدالحفيظ ساجد صاحب ‘‘ جیسے عہد ساز اور نامور اطباء شامل ہیں جو کہ میری انتہائی خوش بختی رہی۔
2007 میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد عملی طور پر اپنے والد کے حکم سے دین و طب کی خدمات میں مصروف عمل ہوا اور بزرگوں کی دعائیں اور اپنی نیک نیتی ساتھ ہونے کی وجہ سے اس میدان میں اللہ تعالیٰ نے بے حد عزت و احترام کے ساتھ ساتھ کامیابیاں عطا کیں۔
سال 2020 میں مشکل ترین سال عالمی وباء کی وجہ سے میں اس بات کو سوچنے پر مجبور ہوا کہ اب آنے والا وقت انٹرنیٹ کا ہے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے اس فورم کو ضرور ذریعہ بنانا چاہیے. یہاں بھی ابتداء میں ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ص کے صدقے میں بھرپور محبتوں سے نوازا۔۔۔
میرا مشن اپنے آباء و اجداد کی طرح عوام کی بے لوث خدمت ہے جبکہ میری نیت اسکی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے
مجھے امید ہے میرا قدم بڑھانے سے آپ جیسے بہت سے نیک نیت افراد میرے ساتھ میرے اس مشن میں شامل ہوں گے۔
ہم جانتے ہیں کہ پوری دنیا میں یہ احساس پیدا ہوچکا ہے کہ ہمیں فطرت اور قدرت کی طرف لوٹ جانا چاہئے وہی ایک بہترین جائے پناہ ہے جو ہمیں اس دور کے فتنوں، وباؤں اور تکالیف سے محفوظ کرسکتی ہے. اس لئے میں نے طب کو پھیلانے دنيا کے کونے کونے تک قدرتی طریقہ علاج کو پہنچانے کا عزم کیا ہے تاکہ لوگ کیمیکل سے پاک قدرتی دواؤں اور قدرتی غذاؤں کی طرف آئیں اور ایک صحت مند زندگی کا احساس حاصل کریں۔
‘‘ میری یہ کاوش صرف ایک ملک کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانیت کے لئے ہے۔ ’’
میں اس بات پہ بھرپور یقین رکھتا ہوں کہ دنيا میں جب آپ خدمت کے جذبے سے داخل ہوتے ہیں تو قدرت آپ کو آپ جیسے لوگوں سے ملاتی ہے اور اپنا سائبان مہیا کرتی ہے۔
نفرت کی آگ نسلی امتیاز مزہبی تعصب کے اس دور میں علاقائی رنجشوں کے اس وقت میں بے لوث خدمت کی ایک قندیل میں نے اٹھائی ہے آپ یورپ سے ہیں ایشیاء سے، افریقہ، امریکہ یا کہیں سے بھی ! آئیں قندیل کے ساتھ قندیل روشن کرتے ہوئے دنيا کو روشن کرتے ہیں۔